اپوزیشن کا ستائیسویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی تحریک کا اعلان

اسلام آباد — ملک کی بڑی اپوزیشن جماعتوں نے 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف بھرپور اور ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم آئینِ پاکستان کی روح کے خلاف ہے اور اس کے ذریعے وفاقی نظام کو کمزور جبکہ صوبائی خودمختاری کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والی اپوزیشن رہنماؤں کی اہم کانفرنس میں تمام جماعتوں کے قائدین نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ وہ اس ترمیم کو کسی صورت منظور نہیں ہونے دیں گے اور اس کے خلاف سڑکوں پر عوامی مزاحمت کریں گے۔

اجلاس کی صدارت اور مشترکہ اعلامیہ

اجلاس کی صدارت اپوزیشن اتحاد کے مرکزی رہنماؤں نے کی، جن میں مختلف جماعتوں کے پارلیمانی لیڈر اور سابق وزرائے اعظم بھی شریک تھے۔ اجلاس میں طویل غور و خوض کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ "27ویں آئینی ترمیم پاکستان کے وفاقی ڈھانچے پر حملہ ہے۔ یہ ترمیم اٹھارویں ترمیم کو غیر مؤثر بنانے کی ایک کوشش ہے جسے ملک کی چاروں اکائیوں نے بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کیا تھا۔”

احتجاج کی منصوبہ بندی

اپوزیشن رہنماؤں نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر حکومت نے اس ترمیم کو واپس نہ لیا تو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سخت احتجاج کیا جائے گا۔ ملک بھر میں جلسے، ریلیاں اور عوامی رابطہ مہم چلائی جائے گی تاکہ عوام کو اس ترمیم کے خطرناک اثرات سے آگاہ کیا جا سکے۔

میڈیا سے گفتگو

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک اہم اپوزیشن رہنما نے کہا کہ "27ویں ترمیم کے ذریعے حکومت دراصل ایک ایسا نظام نافذ کرنا چاہتی ہے جس میں صوبے دوبارہ مرکز کے رحم و کرم پر ہوں۔ ہم ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان کی بقا صوبوں کے اختیارات اور عوام کی شمولیت میں ہے، کسی شخص یا ادارے کے کنٹرول میں نہیں۔”

تحریک کی تفصیلات

اپوزیشن کی جانب سے اعلان کردہ تحریک میں تمام صوبوں میں احتجاجی جلسے، ریلیاں، پریس کانفرنسز اور پارلیمانی واک آؤٹ شامل ہوں گے۔ اپوزیشن اتحاد نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ وہ سول سوسائٹی، وکلاء تنظیموں، طلبہ تنظیموں اور مزدور یونینوں سے رابطہ کرے گا تاکہ ملک گیر سطح پر ایک مؤثر عوامی دباؤ قائم کیا جا سکے۔

ویں ترمیم کے ممکنہ اثرات

رپورٹس کے مطابق اپوزیشن کا کہنا ہے کہ 27ویں ترمیم دراصل مرکز میں طاقت کے ارتکاز کا ایک نیا حربہ ہے، جس کے ذریعے صوبائی اسمبلیوں کے مالی اور انتظامی اختیارات محدود کیے جا رہے ہیں۔ اس ترمیم کے بعد صوبوں کی قانون سازی کی آزادی متاثر ہوگی، جو 2010 کی اٹھارویں ترمیم سے حاصل کی گئی تھی۔

حکومتی موقف

دوسری جانب حکومتی ترجمان نے اپوزیشن کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ "27ویں ترمیم کا مقصد صرف ادارہ جاتی توازن پیدا کرنا ہے، نہ کہ صوبوں کے اختیارات سلب کرنا۔” تاہم اپوزیشن رہنماؤں نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے بیانات اور عملی اقدامات میں تضاد ہے۔

سیاسی ماہرین کی رائے

سیاسی ماہرین کے مطابق، اپوزیشن کا یہ فیصلہ ملکی سیاست میں ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر تحریک نے زور پکڑا تو حکومت کو سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تحریک مستقبل کے سیاسی اتحادوں کی بنیاد بھی بن سکتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک معاشی اور آئینی بحرانوں سے گزر رہا ہے۔

احتجاجی تحریک کی قانونی حدود

اپوزیشن رہنماؤں نے واضح کیا کہ ان کی تحریک آئینی و جمہوری حدود میں رہ کر چلائی جائے گی، لیکن اگر حکومت نے طاقت کا استعمال کیا تو حالات کی ذمہ داری صرف حکومت پر عائد ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہم کسی غیر جمہوری اقدام کے حامی نہیں، مگر عوام کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ بھی نہیں کریں گے۔”

قرارداد اور مطالبات

اپوزیشن کانفرنس کے آخر میں ایک مشترکہ قرارداد منظور کی گئی جس میں 27ویں آئینی ترمیم کو "جمہوری نظام کے لیے خطرہ” قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ "آئین کے بنیادی ڈھانچے میں چھیڑ چھاڑ قومی وحدت کے لیے نقصان دہ ہے اور پاکستان کے وفاقی نظام کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔”

تحریک کا آغاز

اپوزیشن رہنماؤں نے اعلان کیا کہ آئندہ ہفتے سے تحریک کا باضابطہ آغاز بلوچستان سے کیا جائے گا، جس کے بعد خیبر پختونخوا، سندھ اور پنجاب میں بھی بڑے جلسے منعقد کیے جائیں گے۔ اپوزیشن نے عوام سے اپیل کی کہ وہ آئین، جمہوریت اور صوبائی خودمختاری کے تحفظ کے لیے اس تحریک میں بھرپور حصہ

یہ احتجاجی مہم بظاہر صرف ایک آئینی ترمیم کے خلاف ہے، مگر درحقیقت یہ پاکستان کے سیاسی مستقبل کی سمت کا تعین بھی کر سکتی ہے۔

اس طرح مزید معلومات کے لیے ہمارے ویب سائٹ ڈیلی رپورٹس پر تشریف لائے

link

Leave a Comment