افغان مہاجرین چمن میں انسانی ہجوم ایک ہی دن میں 10 ہزار 700 افغان شہریوں کی واپسی

ڈیلی رپورٹ کویٹہ افغان مہاجرین کے بارے میں تفصیلات۔

بلوچستان کے سرحدی شہر چمن ایک بار پھر انسانی ہجوم اور بے چینی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل میں تیزی آئی ہے، اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک ہی دن میں 10 ہزار 700 افغان شہری پاکستان سے افغانستان واپس چلے گئے۔ یہ ہجرت نہ صرف سرحدی انتظامیہ بلکہ مقامی آبادی کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔

بابِ دوستی کا منظر

چمن اور اسپین بولدک کے درمیان واقع بابِ دوستی وہ دروازہ ہے جہاں سے برسوں سے تجارت، آمدورفت اور انسانی روابط قائم ہیں۔ تاہم گزشتہ ہفتوں سے یہاں کے مناظر یکسر بدل گئے ہیں۔ ہزاروں افغان خاندان اپنے بچوں، خواتین اور سامانِ زندگی کے ساتھ لائنوں میں کھڑے ہیں۔ کچھ پیدل، کچھ گاڑیوں پر، تو کچھ اپنے کندھوں پر سامان اٹھائے وطن واپسی کی راہ پر گامزن ہیں۔

بے بسی اور دکھ کی کہانیاں

کئی افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے، مگر اب انہیں اپنی زمین پر لوٹنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ کچھ افراد نے میڈیا سے گفتگو میں شکوہ کیا کہ انہیں اچانک نوٹس ملا اور واپسی کی تیاری کے لیے وقت نہیں دیا گیا۔

سرحدی انتظامیہ پر دباؤ

ایک ہی دن میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی واپسی سے چمن بارڈر پر انتظامی دباؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امیگریشن حکام، لیویز فورس، اور ایف سی اہلکار چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر مامور ہیں تاکہ ہجوم میں نظم و ضبط برقرار رکھا جا سکے۔

افغان مہاجرین

سرحد کے دونوں اطراف خیمے لگائے گئے ہیں، جہاں بنیادی طبی امداد، پانی اور کھانے کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ تاہم مقامی رضاکاروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق، موجودہ انتظامات اتنی بڑی آبادی کے لیے ناکافی ہیں۔

انسانی پہلو اور جذباتی مناظر

واپسی کے اس منظر کا سب سے متاثر کن پہلو انسانی دکھ اور جدائی کا ہے۔ چمن میں کئی افغان خواتین کو روتے دیکھا گیا جو برسوں بعد اپنا گھر بار چھوڑ رہی ہیں۔ بہت سے بچوں کو اپنی جنم بھومی پاکستان کا ہی احساس ہے، افغانستان ان کے لیے ایک اجنبی سرزمین ہے۔ایک بزرگ افغان شہری نے کہا:

“میں نے اپنی جوانی کوئٹہ اور چمن میں گزاری۔ اب بڑھاپے میں مجھے وہاں لوٹنا پڑ رہا ہے جہاں میرا کچھ بھی نہیں بچا۔”یہ جملہ ان ہزاروں چہروں کی نمائندگی کرتا ہے جو اس ہجرت کے پس منظر میں چھپے درد کو بیان کرتا ہے۔

مقامی آبادی پر اثرات

چمن کے مقامی لوگوں کے لیے بھی یہ صورتحال آسان نہیں۔ بہت سے افغان خاندان یہاں برسوں سے کاروبار کر رہے تھے۔ ان کے جانے سے مزدوری، تجارت اور روزمرہ زندگی پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بازاروں میں خریدار کم ہو گئے ہیں اور کئی کرایہ داروں کے مکانات خالی ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب، کچھ مقامی افراد اس فیصلے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، ملک میں سیکیورٹی اور معاشی مسائل کے پیش نظر سرحدی نظم و ضبط ناگزیر ہو چکا تھا۔

افغان حکومت کی تیاری اور ردعمل

افغانستان کی عبوری حکومت نے اپنے شہریوں کے استقبال کے لیے اسپین بولدک میں عارضی کیمپ قائم کیے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ واپس آنے والوں کو رہائش، خوراک اور طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے، تاہم وسائل کی کمی ایک بڑا چیلنج ہے۔

افغان میڈیا کے مطابق، واپس جانے والے بیشتر افراد بے روزگار ہیں اور ان کے پاس مستقبل کے لیے کوئی واضح منصوبہ نہیں۔

بین الاقوامی تنظیموں کی اپیل

اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یو این ایچ سی آر اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں نے دونوں ممالک سے اپیل کی ہے کہ واپسی کے عمل کو انسانی بنیادوں پر آسان بنایا جائے۔ تنظیموں کے مطابق، بچوں، خواتین اور بیمار افراد کے لیے خصوصی سہولتیں مہیا کی جانی چاہئیں تاکہ وہ محفوظ انداز میں وطن واپس جا سکیں۔

نتیجہ — ایک تاریخی انسانی ہجرت

چمن بارڈر پر ایک ہی دن میں 10 ہزار 700 افغان شہریوں کی واپسی محض ایک عدد نہیں، بلکہ ایک تاریخی انسانی ہجرت ہے جو کئی سماجی، معاشی اور جذباتی کہانیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

یہ لمحہ دونوں ممالک کے لیے ایک امتحان ہے — پاکستان کے لیے انسانی بنیادوں پر نرمی دکھانے کا، اور افغانستان کے لیے اپنے شہریوں کو بہتر زندگی فراہم کرنے کا۔وقت بتائے گا کہ یہ واپسی ان مہاجرین کے لیے نئی شروعات ثابت ہوتی ہے یا ایک اور آزمائش۔

لنک پر کلک کریں

اس طرح مزید معلوماتی ارٹیکلز کے لیے ہمارا ویب سائٹ ڈیلی رپورٹس پر تشریف لائیے

Leave a Comment