ستائیسویں آئینی ترمیم ایک بار پھر ملکی سیاست میں بحث کا مرکزی موضوع بن گئی ہے، جب پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اس مجوزہ ترمیم پر نہایت سخت ردِعمل دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ ترمیم پارلیمنٹ سے منظور ہوئی تو یہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوگی، اور قوم کو ’’پاکستان کی موت کی فاتحہ‘‘ پڑھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ان کے اس بیان نے سیاسی اور عوامی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔
وفاقی ڈھانچے پر کاری ضرب؟
محمود خان اچکزئی کے مطابق پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے، جس کی بنیاد صوبوں کے مساوی حقوق اور اختیارات پر رکھی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم اگر منظور ہوئی تو مرکز کو مزید طاقتور بنانے اور صوبوں کے خودمختار اختیارات کو محدود کرنے کا راستہ کھل جائے گا۔
ان کے بقول، ماضی میں بھی ایسی پالیسیوں نے وفاق کو کمزور کیا اور صوبوں میں بے اعتمادی پیدا کی، جس کے نتیجے میں قوم میں تقسیم اور بداعتمادی بڑھی۔ اب اگر تاریخ کو پھر سے دہرایا گیا، تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہوں گے۔
صوبائی حقوق کا دفاع
انٹرویو میں محمود خان اچکزئی نے کہا،
"آئین کا مقصد صوبوں کو بااختیار بنانا تھا، مگر اب طاقت چند ہاتھوں میں مرکوز کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اگر صوبوں کے وسائل، زمینیں اور اختیارات چھین لیے گئے تو یہ ملک کے اتحاد کے لیے زہر قاتل ثابت ہوگا۔”
انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت اس ترمیم کی سخت مخالفت کرے گی، چاہے اس کے لیے سیاسی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ ان کے مطابق، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ کے عوام پہلے ہی احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ اگر آئینی طور پر بھی صوبوں کے اختیارات کم کیے گئے، تو اس سے علیحدگی پسند جذبات کو مزید تقویت مل سکتی ہے۔
18ویں ترمیم کا پس منظر
محمود اچکزئی نے 18ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے وفاق کو مضبوط بنانے کے لیے ایک تاریخی قدم تھا۔ اس ترمیم نے صوبوں کو مالی اور انتظامی خودمختاری دی، اور وفاقی اکائیوں کے درمیان توازن قائم کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب اگر ستائیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے 18ویں ترمیم کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ’’ریاست کی بنیادوں کو ہلانے کے مترادف‘‘ ہوگی۔
جمہوریت یا دکھاوا؟
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اراکین کو عوام کی آواز بننا چاہیے، نہ کہ طاقت کے ایوانوں کے حکم کے تابع۔
"اگر عوام کی بجائے چند قوتیں فیصلے کریں گی تو جمہوریت محض ایک دکھاوا رہ جائے گی۔”
ان کے مطابق، حقیقی جمہوریت تب ہی ممکن ہے جب عوام، صوبے اور ادارے آئین کے دائرے میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ کسی ایک فریق کو دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
غیر جمہوری مداخلت پر تنقید
اپنے انٹرویو میں محمود اچکزئی نے ملکی سیاست میں بڑھتی ہوئی غیر جمہوری مداخلت پر بھی شدید تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین سے کھیلنا اور اداروں کے اختیارات میں مداخلت ریاست کے لیے خودکشی کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی جمہوریت کو دبایا گیا، ملک کو نقصان پہنچا۔ لہٰذا تمام سیاسی قوتوں کو آئین کی پاسداری کرنی چاہیے تاکہ ملک استحکام کی راہ پر گامزن ہو۔
عوامی آگاہی مہم کا اعلان
محمود خان اچکزئی نے اس موقع پر اعلان کیا کہ ان کی جماعت اس ترمیم کے خلاف عوامی سطح پر آگاہی مہم شروع کرے گی۔ ان کے مطابق، عوام کو سمجھانا ضروری ہے کہ آئینی ترامیم صرف کاغذی تبدیلیاں نہیں ہوتیں، بلکہ ان کے اثرات براہِ راست ان کی روزمرہ زندگی اور مستقبل پر پڑتے ہیں۔
انہوں نے کہا،
"یہ معاملہ صرف ایک ترمیم کا نہیں بلکہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے، صوبائی حقوق اور جمہوری مستقبل کا ہے۔ اگر یہ ترمیم پاس ہوئی تو ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ایک متحد اور جمہوری پاکستان چاہتے ہیں یا ایک ایسا ملک جہاں مرکز سب کچھ ہو اور عوام محض تماشائی۔”
سیاسی ردِ عمل
اچکزئی کے اس مؤقف نے ملک کے سیاسی ماحول میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق ان کا بیان سخت ضرور ہے، مگر اس میں ایک تلخ حقیقت پوشیدہ ہے — وہ یہ کہ پاکستان کی بقا وفاق کے استحکام میں ہے، مرکزیت میں نہیں۔
وفاق کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ صوبے خودمختار، وسائل کے مالک، اور فیصلوں میں برابر کے شریک ہوں۔
نتیجہ
ستائیسویں آئینی ترمیم پر جاری بحث محض ایک قانونی معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کی وفاقی شناخت، جمہوریت اور آئینی توازن کا امتحان ہے۔ محمود خان اچکزئی کی وارننگ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ اگر صوبوں کے حقوق اور عوامی اختیارات کو کمزور کیا گیا تو وفاق کی بنیادیں ہل سکتی ہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ آئینی فیصلے سیاسی مصلحت کے بجائے قومی اتفاقِ رائے سے کیے جائیں — کیونکہ ایک مضبوط وفاق ہی ایک مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے۔
