یہ ایک بہت بروقت اور اہم سوال ہے — حالیہ دنوں میں سلمان اکرم راجہ کے اس بیان کے پسِ پس کہ “پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)” کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے — صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی) میں گورنر راج (Governor’s Rule) کے نفاذ کا “خطرہ موجود” ہے — ایک بحث گرم ہوئی ہے۔ ذیل میں وضاحت کی گئی ہے کہ گورنر راج دراصل کیا ہے، اس کی قانونی حیثیت کیا ہے، اور آج کیوں یہ امکان زیر غور ہے۔
گورنر راج کیا ہوتا ہے؟
گورنر راج وہ صورت حال ہوتی ہے جب کسی صوبے کی منتخب حکومت (وزیراعلیٰ اور صوبائی اسمبلی) کی جگہ گورنر کو تمام اختیارات سونپ دیے جاتے ہیں — یعنی صوبے کی انتظامیہ، قانون سازی، اور کابینہ سمیت تمام انتظامی امور براہِ راست گورنر کے کنٹرول میں آ جاتے ہیں
اختیار آئینی شقوں (مثلاً آرٹیکل 232، 233، 234) کے تحت استعمال کیا جاسکتا ہے، جب صوبے میں “اندرونی یا بیرونی سلامتی” کے شدید خطرات ہوں، یا کسی قسم کا سیاسی/انتظامی بحران ہو جسے صوبائی حکومت خود حل نہ کر پا رہی ہو۔
گورنر راج نافذ ہونے پر صوبائی اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے یا ان کی کارکردگی معطل، اور بنیادی شہری حقوق یا انتظامی آزادیوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔
ماضی میں پاکستان کے مختلف صوبوں — بشمول خیبرپختونخوا — میں گورنر راج نافذ ہو چکا ہے۔
موجودہ پس منظر: کیوں گورنر راج پر بات ہو رہی ہے؟
گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ کے پی میں گورنر راج ایک “قانونی اور آئینی آپشن” ہے، اور اسے “انتظامی بحران، سیکیورٹی، اور گورننس مسائل” کے تناظر میں زیر غور رکھ رہی ہے۔
ایک وفاقی وزیر نے کھل کر کہا کہ اگر حالات “ضرورت” پیدا کریں تو گورنر راج نافذ کرنا آئینی ہے اور اس کا مطلب مارشل لا نہیں۔
اس نکتے پر گزشتہ روز سلمان اکرم راجہ نے خبردار کیا کہ “کے پی میں گورنر راج کا خطرہ موجود ہے” — ان کے بقول اگر پی ٹی آئی کے بانی یا قائد سے ملاقات نہ کرائی گئی، اور آئینی عمل درکار نہ رہا، تو یہ اقدام “غیر آئینی” ہو سکتا ہے
دعوے اور تردید: حالات کیا ہیں؟
البتہ صوبے کے موجودہ گورنر فیصل کریم کنڈی نے بار بار کہا ہے کہ انہیں گورنر راج کے حوالے سے کوئی رسمی مشاورت نہیں کی گئی، اور “فی الحال” ایسی کسی تجویز پر کام نہیں ہو رہا
ورنر یا پارٹی قیادت سے اس بارے میں کوئی مشاورت یا اعتماد میں لینا کا عمل نہیں ہوا
مزید برآں، صوبے کے ایڈووکیٹ جنرل نے کہا ہے کہ “فی الحال گورنر راج کا کوئی جواز / قانونی بنیاد موجود نہیں” اور اگر ایسا کیا گیا تو عدالتوں میں چیلنج ہوگا۔
سلمان اکرم راجہ کا بیان کیوں اہم ہے؟
سلمان اکرم راجہ — بطور پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل — اس لئے آواز اٹھا رہے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی کے خیال میں گورنر راج نہ صرف صوبائی حکومت کی تبدیلی بلکہ منتخب نمائندوں کی نااہلی اور عوامی مینڈیٹ کی پامالی کی علامت ہو سکتی ہے۔ یہ بیان عوامی اور سیاسی شعور بیدار کرنے کی کوشش بھی ہے۔
ان کے مطابق اگر “بنیادی رہنماؤں” سے رابطہ نہ ہوا، اور گورنر راج لایا گیا تو یہ “آئینی جرم” ہوگا — یعنی منتخب نمائندوں کے حقِ نمائندگی کی خلاف ورزی۔
اس بیان نے پی ٹی آئی کی طرف سے ممکنہ سیاسی مزاحمت کی تیاری کی بھی نشاندہی کی ہے — جو آئندہ کسی بھی فیصلے کو آسان نہیں ہونے دے گی۔
گورنر راج کے ممکنہ نتائج اور خدشات
اگر گورنر راج نافذ ہوا، تو صوبائی حکومت معطل ہوگی، صوبائی اسمبلی غیر فعال ہو جائے گی، اور عوامی نمائندگی کمزور پڑ جائے گی — جو کہ جمہوری اقدار اور وفاقی ڈھانچے کے لیے خطرہ ہے۔
س سے عوامی احتجاج، سیاسی انتشار، اور سماجی بے چینی کا امکان بڑھ سکتا ہے — خاص طور پر اگر لوگ اسے “آئینی بغاوت” یا “جمہوریت کی پامالی” سمجھیں۔
قانونی اعتبار سے بھی یہ اقدام چیلنج ہو سکتا ہے — جیسا کہ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا ہے۔
اس کے برعکس، حکومت اسے ایک “ہنگامی انتظامی ضرورت” کے طور پر پیش کر رہی ہے، تاکہ “امن و امان” اور “گورننس” کو بہتر کیا جائے — لیکن سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حالات واقعی اتنے سنگین ہیں کہ اتنا بڑا قدم جائز ہو؟
نتیجہ: گورنر راج ایک سنگین انتخاب ہے
گورنر راج صرف ایک آئینی آپشن نہیں، بلکہ ایک ایسا اقدام ہے جس کے بیحد سنجیدہ اور دیرپا نتائج ہو سکتے ہیں — جمہوریت، عوامی نمائندگی، وفاقی خود مختاری اور اداروں کی آزادی پر۔ سلمان اکرم راجہ کی وارننگ اس لیے اہم ہے کہ اس سے صاف ہوتا ہے کہ صرف میڈیا افواہیں نہیں بلکہ ایک حقیقی خطرہ زیر غور ہے۔
اس وقت صورتِ حال الجھی ہوئی ہے — ایک طرف وفاقی حکومت کہہ رہی ہے کہ “ضرورت پڑی تو” گورنر راج آئینی ہے؛ دوسری طرف صوبائی حکومت اور قانونی حلقے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اگر حقیقی جمہوری عمل برقرار رکھنا ہے، تو ضروری ہے کہ عوام، سیاسی جماعتیں، اور سول سوسائٹی مل کر اس معاملے پر غور کریں اور آئینی حدود میں رہ کر حل تلاش کریں۔
اسی طرح مزید معلوماتی ارٹیکل کیلیے ہمارے ویب سائیٹ (ڈیلی رپورٹس) پر تشریف لائیں

