پاکستان کی سیاست ایک بار پھر آئینی بحث کے گرد گھوم رہی ہے۔ ستائیسویں آئینی ترمیم کے پیش کیے جانے کے بعد ملک کے سیاسی و فکری حلقوں میں ایک نئی گرما گرمی پیدا ہوگئی ہے۔ یہ ترمیم وفاقی ڈھانچے، صوبائی خودمختاری، اور اختیارات کی تقسیم جیسے حساس موضوعات سے جڑی ہوئی ہے۔ ایسے میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللہ کا ایک مختصر مگر معنی خیز ٹویٹ، “ميم زرما ټوله زما” (یعنی “یہ سب میرا ہے، مکمل میرا ہے”) سیاسی منظرنامے میں ایک علامتی پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یہ پشتو جملہ بظاہر سادہ مگر معنوی لحاظ سے گہرا طنز رکھتا ہے۔ حافظ حمداللہ کے اس بیان کو ایک سیاسی تبصرہ سمجھا جا رہا ہے جو موجودہ حکومت اور مقتدر حلقوں کے اس رویے کی عکاسی کرتا ہے جس میں وہ ریاستی فیصلوں پر یکطرفہ اجارہ داری رکھتے ہیں۔ ان کا یہ جملہ دراصل اس سوچ کی نشاندہی کرتا ہے کہ “اختیارات اور فیصلے چند ہاتھوں تک محدود کر دیے گئے ہیں” — بالکل اسی طرح جیسے کوئی کہہ دے کہ ملک کے تمام معاملات “میری ملکیت” ہیں۔
سیاسی ردعمل
حافظ حمداللہ کا ٹویٹ اس پس منظر میں سامنے آیا جب سینیٹ میں یہ ترمیم بحث کے لیے پیش کی گئی۔ ان کے بقول، “یہ ترمیم پاکستان کے وفاقی توازن کو بگاڑنے کی کوشش ہے۔” انہوں نے اپنے اندازِ بیان میں پشتو زبان کے ذریعے وہ احساس ظاہر کیا جو کئی قوم پرست اور جمہوری جماعتوں کے دلوں میں موجود ہے۔
ميم زرما ټوله زما” صرف ایک جملہ نہیں بلکہ ایک احتجاجی نعرہ بن گیا ہے۔ اس کے ذریعے حافظ حمداللہ نے یہ پیغام دیا کہ اگر تمام ادارے، وسائل اور فیصلے مرکز یا کسی ایک ادارے کی ملکیت بن جائیں تو صوبائی خودمختاری محض ایک دکھاوا رہ جاتی ہے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تشویش
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی جماعتوں نے بھی ستائیسویں ترمیم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق، یہ اقدام ان صوبوں کے عوامی مینڈیٹ اور آئینی حقوق پر براہ راست حملہ ہے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، اور بلوچستان نیشنل پارٹی جیسے گروہ اس ترمیم کو “وفاق کی بالادستی کے نئے دور” کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
حافظ حمداللہ کا ٹویٹ ان جماعتوں کے بیانیے سے گہری مطابقت رکھتا ہے۔ ان کا طنز دراصل ایک بڑے سیاسی المیے کی طرف اشارہ ہے — کہ پاکستان میں آئین کو بار بار طاقتور طبقات کے مفاد کے مطابق بدلنے کی روایت بن چکی ہے۔

عوامی تاثر
سوشل میڈیا پر حافظ حمداللہ کا جملہ تیزی سے وائرل ہوا۔ بہت سے صارفین نے اسے “سچائی کا خلاصہ” قرار دیا، جبکہ بعض نے اسے محض سیاسی بیان بازی کہا۔ تاہم ایک بات پر سب متفق دکھائی دی کہ موجودہ حالات میں یہ جملہ عوام کے اندر پائے جانے والے غصے اور بے بسی کا مظہر ہے۔
پشتون اور بلوچ نوجوانوں نے بھی اس جملے کو ایک مزاحمتی نعرہ کے طور پر اپنایا ہے، جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ “ملک میں فیصلے عوام کے نہیں، مخصوص طبقات کے ہیں۔”
آئین اور جمہوریت کا امتحان
ستائیسویں آئینی ترمیم کا عمل صرف ایک قانونی بحث نہیں، بلکہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ اگر صوبوں کو ان کے آئینی اختیارات سے محروم کیا گیا تو یہ نہ صرف سیاسی بے چینی کو بڑھائے گا بلکہ مرکز اور صوبوں کے درمیان اعتماد کی خلیج کو بھی گہرا کرے گا۔
حافظ حمداللہ کا بیان اس خطرے کی نشاندہی کرتا ہے کہ “ملک کو ایک شخص یا ادارے کی ملکیت سمجھنے کا رویہ” آخرکار قومی وحدت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
خلاصہ
“ميم زرما ټوله زما” — یہ جملہ محض ایک ٹویٹ نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو پاکستانی سیاست کے موجودہ چہرے کو دکھاتا ہے۔ ستائیسویں آئینی ترمیم کے پس منظر میں یہ پیغام صاف ہے کہ اگر آئینی ادارے، صوبائی حقوق اور عوامی مینڈیٹ کو ایک بار پھر پسِ پشت ڈالا گیا تو ملک میں آئینی بحران جنم لے سکتا ہے۔
حافظ حمداللہ کے الفاظ میں طنز، حقیقت، اور احتجاج — تینوں شامل ہیں۔ ان کا یہ بیان ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک یاد دہانی ہے کہ پاکستان ایک وفاق ہے، کسی ایک کا نہیں
مزید اسی طرح معلوماتی ارٹیکلز پڑھنے کے لیے امارہ ویب سائٹ ڈیلی رپورٹس پر تشریف لائیےhttps://dailyreports.store/
