Site icon Daily Reports

دو دسمبر کا جلسہ ملکی سیاست اور جمہوری تحریک کا ممکنہ موڑ

دو دسمبر کا جلسہ

پاکستان کی سیاست میں بعض اوقات ایسے لمحات آتے ہیں جب بظاہر معمول کے سیاسی اجتماعات غیر معمولی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں۔ کئی بار ایک جلسہ، ایک ریلی یا ایک احتجاج مستقبل کی سیاسی بساط کو ایسے بدل دیتا ہے کہ بعد میں مورخین اسے فیصلہ کن موڑ کے طور پر لکھتے ہیں۔ اسی تناظر میں سینئر سیاسی رہنما عبدالرحیم زیارت وال کا یہ بیان—کہ “2 دسمبر کا جلسہ ملکی سیاست اور جمہوری تحریک میں سنگِ میل ثابت ہوگا”—اپنے اندر محض سیاسی جوش نہیں بلکہ موجودہ حالات کا سنجیدہ اشارہ بھی رکھتا ہے۔

ملکی سیاسی منظرنامہ اس وقت شدید بے یقینی اور مسلسل تبدیلیوں کے دور سے گزر رہا ہے۔ معاشی ابتری، بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی تقسیم نے عوام کے اندر بے چینی اور اضطراب کو جنم دیا ہے۔ اسی ماحول میں سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں اور عوام کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ایسے میں 2 دسمبر کا مجوزہ جلسہ محض ایک روایتی سیاسی اجتماع نہیں بلکہ ایک بڑے سیاسی امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

جلسے کو "سنگِ میل” قرار دینے کی سیاسی منطق

عبدالرحیم زیارت وال کا بیان اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس جلسے کے پیچھے ایک منظم سوچ اور حکمتِ عملی موجود ہے۔ ان کا دعویٰ یہ بتاتا ہے کہ یہ اجتماع کسی وقتی ردِعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ مستقبل کی سیاسی سمت متعین کرنے کی کوشش ہے۔ سیاسی مبصرین بھی اس بات سے متفق دکھائی دیتے ہیں کہ موجودہ حالات میں عوامی جلسوں کی اہمیت دوچند ہو چکی ہے۔ عوامی شرکت نہ صرف سیاسی بیانیوں کی طاقت کا پیمانہ بنتی ہے بلکہ طاقت کے توازن پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔

اپوزیشن و حکومت کشمکش: جلسے کی بڑھتی حساسیت

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری تناؤ، پارلیمانی سطح پر اختلافات اور سیاسی دھڑے بندی نے ملکی سیاست میں ایک نئی کشیدگی پیدا کی ہے۔ ایسے ماحول میں اپوزیشن کے لیے بڑے جلسے طاقت کا عملی ثبوت ہوتے ہیں۔ 2 دسمبر کا جلسہ اسی تناظر میں ایسا پلیٹ فارم بن سکتا ہے جہاں سے مستقبل کے احتجاجی لائحہ عمل، تحریکوں اور سیاسی حکمت عملیوں کا اعلان ممکن ہے۔

زیارت وال جیسے رہنماؤں کی سیاسی فعالیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ جلسہ کارکنوں کو دوبارہ متحد کرنے، عوامی جذبات کو بیدار کرنے اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کی ایک منظم کوشش ہو سکتی ہے۔

جمہوری تحریک کے تناظر میں جلسے کی اہمیت

پاکستان کی سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ بڑے عوامی اجتماعات نے ہمیشہ سیاسی جمود توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چاہے بات 1960 کی دہائی کی احتجاجی تحریکوں کی ہو، 1980 کی بحالیٔ جمہوریت کی مہمات کی یا 2007–08 کی عدلیہ بحالی تحریک کی—ہر دور میں عوامی جلسوں نے طاقت کے مراکز کو مجبور کیا کہ وہ نئی سیاسی حقیقتوں کو تسلیم کریں۔

اسی تاریخی پس منظر میں زیارت وال کا دعویٰ محض جذباتی بیان نہیں لگتا۔ ان کے مطابق یہ جلسہ جمہوری جدوجہد کے لیے ایک ’’نیا موڑ‘‘ بھی بن سکتا ہے۔ اگر عوامی شرکت نمایاں رہی، تو یہ اجتماع موجودہ سیاسی طاقت کے توازن پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھے گا۔

نوجوانوں کی شرکت اور میڈیا کا کردار

آج کا سیاسی ماحول ماضی سے مختلف ہے۔ نوجوان آبادی سیاسی مباحث میں زیادہ شامل ہے، سوشل میڈیا بیانیے تشکیل دینے میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے اور ایک جلسے کی بازگشت چند گھنٹوں میں ملک بھر کیا، بیرونِ ملک تک پہنچ جاتی ہے۔ یوں 2 دسمبر کا جلسہ صرف میدان میں موجود افراد تک محدود نہیں رہے گا؛ اس کے اثرات ڈیجیٹل اسپیس میں بڑھ کر سیاسی جماعتوں کے لیے نئے چیلنج بھی پیدا کر سکتے ہیں۔

نتیجہ: فیصلہ وقت کرے گا، لیکن اشارے واضح ہیں

یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا 2 دسمبر کا جلسہ واقعی ملکی سیاست کا ’’سنگِ میل‘‘ ثابت ہو گا یا نہیں۔ لیکن موجودہ حالات، سیاسی سرگرمیوں کی رفتار، بڑھی ہوئی عوامی دلچسپی اور قیادت کے بلند دعوے اس بات کا عندیہ ضرور دیتے ہیں کہ یہ اجتماع نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔

اگر جلسہ بڑے پیمانے پر عوامی شرکت اور واضح سیاسی پیغام کے ساتھ منعقد ہوا تو یہ واقعی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اور اگر یہ اجتماع توقعات پر پورا نہ اترا تو بھی یہ سیاسی بحث کو نئی سمت ضرور دے جائے گا۔

فی الحال، سیاسی ماحول کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے اور 2 دسمبر کا جلسہ اسی ماحول میں ایک اہم سیاسی مرحلہ بنتا دکھائی دیتا ہے—بالکل ویسا ہی جیسا عبدالرحیم زیارت وال اسے قرار دے رہے ہیں۔

اسی طرح مزید اج کل پڑھنے کے لیے ہمارے ویب سائٹ ڈیلی رپورٹس پر تشریف لائے ہیں

Exit mobile version