پاکستان میں مہنگائی کی لہر ایک بار پھر شدت اختیار کر چکی ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ چینی کی قیمت 220 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے، جس نے عوامی حلقوں میں شدید تشویش اور غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں لوگ حکومت سے فوری طور پر نوٹس لینے اور قیمتوں میں استحکام لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
چینی کی قیمت میں اضافہ: پس منظر اور وجوہات
چینی کی قیمت میں اچانک اضافہ کوئی نیا واقعہ نہیں، بلکہ پچھلے چند سالوں سے پاکستان میں چینی کے بحران کا سلسلہ وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہا ہے۔ اس اضافے کی متعدد وجوہات بیان کی جا رہی ہیں، جن میں سب سے اہم گنے کی پیداوار میں کمی، ذخیرہ اندوزی، اور منافع خور مافیا کی سرگرمیاں شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق، ملک میں گنے کی پیداوار اس سال گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کم ہوئی ہے، جس کی وجہ سے شوگر ملز کو چینی کی تیاری میں دشواری کا سامنا ہے۔ دوسری جانب، کچھ شوگر مل مالکان اور بیوپاری مبینہ طور پر چینی کو ذخیرہ کر کے مصنوعی قلت پیدا کر رہے ہیں تاکہ قیمتوں کو اوپر لے جایا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں عام صارف مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
عوامی ردِعمل: احتجاج اور بے بسی
چینی جیسی روزمرہ ضرورت کی چیز کی قیمت میں اتنا زیادہ اضافہ عوام کے لیے کسی بڑے صدمے سے کم نہیں۔ کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں شہریوں نے حکومت سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک شہری کے مطابق:
“220 روپے میں ایک کلو چینی خریدنا ممکن نہیں رہا، گھر کا بجٹ مکمل طور پر بگڑ گیا ہے۔ حکومت صرف بیانات دیتی ہے مگر عملی اقدامات نہیں کرتی۔”
دوسری طرف، متوسط طبقہ اور کم آمدنی والے طبقے کے افراد کا کہنا ہے کہ چینی تو اب ایک عیاشی کی شے بنتی جا رہی ہے۔ لوگ چائے پینے سے بھی گریز کرنے لگے ہیں، کیونکہ روزانہ کی چھوٹی سی ضرورت بھی اب جیب پر بھاری بوجھ بن چکی ہے۔
تاجر اور دکاندار بھی پریشان
صرف صارفین ہی نہیں، بلکہ تاجر اور دکاندار بھی اس صورتحال سے متاثر ہو رہے ہیں۔ مارکیٹ میں چینی کی قلت کے باعث سپلائی کا تسلسل متاثر ہوا ہے۔بعض دکانداروں کا کہنا ہے کہ:
“ہمیں ہول سیل مارکیٹ سے ہی چینی 210 سے 215 روپے میں ملتی ہے، تو ہم کیسے 220 سے کم پر بیچ سکتے ہیں؟ حکومت اگر واقعی عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو سپلائی چین کو درست کرے۔”
تاجروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو فوری طور پر اسٹاک چیکنگ، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن، اور شوگر ملز کے آڈٹ کا حکم دینا چاہیے تاکہ چینی کی قیمت دوبارہ معمول پر لائی جا سکے۔
حکومت کا موقف اور اقدامات
وفاقی حکومت کے ترجمان کے مطابق، چینی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ مصنوعی بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
ترجمان کے بقول:
“ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ عوام کو ریلیف دینا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔”
تاہم، عوام کا کہنا ہے کہ یہ بیانات عملی شکل اختیار نہیں کرتے۔ گزشتہ کئی برسوں سے چینی مافیا کے خلاف کارروائی کے اعلانات ہوتے رہے ہیں، مگر نتائج سامنے نہیں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کے اعتماد میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔
ماہرین کی رائے: مستقل حل کی ضرورت
معاشی ماہرین کے مطابق، چینی کی قیمتوں میں اضافہ وقتی مسئلہ نہیں بلکہ پالیسی کی ناکامی کا مظہر ہے۔ پاکستان میں چینی کی پیداوار، برآمد، اور قیمتوں کے تعین کا کوئی واضح اور دیرپا نظام موجود نہیں۔ جب تک حکومت چینی کی قومی پالیسی نہیں بنائے گی، ایسے بحران وقتاً فوقتاً آتے رہیں گے۔
ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ حکومت کو چینی کی برآمد پر وقتی پابندی، شوگر ملز کے شفاف آڈٹ، اور کسانوں کے لیے سبسڈی جیسے اقدامات کرنے چاہییں تاکہ قیمتوں میں استحکام لایا جا سکے۔
نتیجہ: عوامی مشکلات اور حکومت کی آزمائش
220 روپے فی کلو چینی کی قیمت اس بات کی عکاس ہے کہ مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہو چکا ہے۔ عام آدمی کی قوتِ خرید تیزی سے گھٹ رہی ہے، اور اشیائے ضروریہ عام شہری کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ حکومت کے لیے یہ ایک بڑی آزمائش ہے کہ وہ کیسے فوری اور مؤثر اقدامات کے ذریعے عوام کو ریلیف فراہم کرتی ہے۔
اگر چینی، آٹا، گھی اور دیگر بنیادی ضروریات کی قیمتوں کو کنٹرول نہ کیا گیا تو عوامی بے چینی مزید بڑھے گی اور حکومت پر اعتماد میں مزید کمی واقع ہو گی۔ عوام کا مطالبہ واضح ہے:
“حکومت فوری نوٹس لے، اور چینی سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو عام آدمی کی پہنچ میں واپس لائے۔”
اس طرح مجید ارٹیکلز کے لیے ہمارے ڈیلی رپورٹ پر تشریف لائیے

