کوئٹہ میں چکن کی قیمتوں کا بحران2000 کلو: عوامی شکایات اور حکومتی بے حسی

کوئٹہ شہر میں حالیہ دنوں میں چکن کی قیمتوں نے عوام میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔ مارکیٹ میں چکن کا ریٹ اس وقت تقریباً 400 روپے فی کلو ہے، لیکن شہر کے مختلف ہوٹلوں، ریسٹورنٹس اور فاسٹ فوڈ پوائنٹس پر یہی چکن جب تیار شدہ ڈش کے طور پر فروخت ہوتا ہے تو اس کی قیمت 2000 روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس غیر معمولی فرق نے شہریوں کو حیران اور پریشان کر دیا ہے، اور لوگ سوال کر رہے ہیں کہ آخر ایک ہی چیز عام خریدار کے لیے سستی اور ہوٹل میں اتنی مہنگی کیوں ہے؟

عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ہوٹل مالکان نے منافع خوری کی حدیں پار کر دی ہیں۔ جہاں عام آدمی کے لیے روزمرہ کی اشیاء پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ سے باہر ہیں، وہیں اب کھانے پینے کی عام چیزیں بھی ان کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ چکن، جو کبھی متوسط طبقے کے لیے نسبتاً سستی پروٹین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، اب ایک "عیاشی” بن کر رہ گیا ہے۔

کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں شہریوں نے بتایا کہ اگر گھر میں چکن خریدا جائے تو ایک مکمل کھانا 500 سے 600 روپے میں بن جاتا ہے، لیکن ہوٹل میں جا کر یہی کھانا کھائیں تو بل ہزاروں روپے میں آتا ہے۔ ایک شہری کا کہنا تھا، "ہم سمجھتے ہیں کہ ہوٹل کا خرچ، کرایہ اور مزدوری شامل ہوتی ہے، لیکن چار گنا قیمت لینا ظلم ہے۔”

کوئٹہ میں چکن کی قیمتوں میں اضافہ اور عوامی ردِعمل

حکومتِ بلوچستان کی جانب سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر وقتاً فوقتاً کنٹرول کے دعوے تو کیے جاتے ہیں، مگر عملی طور پر عوام کو کوئی ریلیف نظر نہیں آتا۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے نرخنامے مقرر کیے جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر ہوٹل والے یہ کہہ کر دفاع کرتے ہیں کہ انہیں گیس، بجلی، ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی وجہ سے قیمتیں بڑھانی پڑتی ہیں، لیکن عام شہریوں کے نزدیک یہ دلیل کمزور ہے، کیونکہ قیمتوں میں یہ فرق غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔

کوئٹہ میں چکن کی قیمتوں

ایک اور پہلو جس نے عوامی ناراضی میں اضافہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ بعض ہوٹلوں میں معیار بھی قیمت کے مطابق نہیں ہوتا۔ شہریوں نے شکایت کی ہے کہ اکثر جگہوں پر کھانے کا معیار کمزور اور صفائی کا انتظام ناقص ہوتا ہے، مگر قیمتیں بڑے شہروں کے فائیو اسٹار ہوٹلوں کے برابر وصول کی جاتی ہیں۔ اس صورتحال نے صارفین کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ یا تو باہر کھانا چھوڑ دیں یا گھریلو متبادل تلاش کریں

چکن کے تاجروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بھی مسائل ہیں۔ ان کے مطابق، مرغی کی فیڈ، ٹرانسپورٹ اور بجلی کے اخراجات میں اضافے نے ان کی لاگت بڑھا دی ہے۔ تاہم، مارکیٹ ریٹ کے مطابق 400 روپے فی کلو چکن اب بھی معقول قیمت سمجھی جاتی ہے۔ اصل مسئلہ، ان کے بقول، ہوٹلوں میں حد سے زیادہ منافع خوری ہے جس پر حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

شہریوں کا مطالبہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ خصوصی ٹیمیں تشکیل دے جو ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس میں کھانے پینے کی اشیاء کے نرخ چیک کریں، اور جو ادارے من مانی قیمتوں پر چیزیں بیچ رہے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ کچھ شہریوں نے سوشل میڈیا پر مہم بھی شروع کی ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ عوام اس وقت تک احتجاج جاری رکھیں جب تک قیمتوں کو کنٹرول نہیں کیا جاتا۔

ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اس قسم کی قیمتوں میں بے اعتدالی صرف انتظامی ناکامی نہیں بلکہ ایک سماجی رویہ بھی ہے۔ جب لوگ خود غیر ضروری حد تک مہنگے ہوٹلوں میں جا کر کھانا کھاتے ہیں تو منافع خوروں کو حوصلہ ملتا ہے کہ وہ مزید قیمتیں بڑھائیں۔ عوامی بائیکاٹ اور بیداری بھی قیمتوں کے استحکام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ کوئٹہ میں چکن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں صرف ایک غذائی مسئلہ نہیں بلکہ ایک بڑے معاشی بحران کی علامت ہیں۔ جہاں ایک طرف عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں پس رہا ہے، وہیں دوسری طرف کچھ لوگ اسی صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکومت اگر واقعی عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے صرف نرخنامے جاری کرنے سے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے — تاکہ عام شہری بھی باعزت طریقے سے اپنے گھر یا باہر ایک سادہ کھانا کھا سکے۔

اس طرح مزید اچھی اور معلوماتی معلومات کے لیے ہمارا ویب سائٹ ڈیلی رپورٹس پر تشریف لائیے

Leave a Comment