ستائیسویں آئینی ترمیم وفاق کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش؟

پاکستان کا آئین 1973 میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا، جسے قومی وحدت اور جمہوری بالادستی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مگر وقتاً فوقتاً اس آئین میں مختلف ترامیم کی جاتی رہی ہیں، جن میں بعض نے جمہوریت کو مضبوط کیا اور بعض نے ریاستی اداروں کے اختیارات میں تضاد پیدا کیا۔ حالیہ مجوزہ ستائیسویں آئینی ترمیم بھی انہی متنازع ترامیم میں سے ایک قرار دی جا رہی ہے، جس نے ملک کی سیاسی و وفاقی فضا میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔

ترمیم کا پس منظر

‎ستائیسویں آئینی ترمیم دراصل ایک حکومتی کوشش کے طور پر سامنے آئی جس کا مقصد بتایا گیا کہ "صوبوں اور وفاق کے درمیان اختیارات کی نئی تقسیم” کی جائے تاکہ انتظامی امور بہتر انداز میں چلائے جا سکیں۔ تاہم، ناقدین کا مؤقف ہے کہ یہ ترمیم وفاقی نظام کو کمزور اور صوبائی خودمختاری کو محدود کرنے کی ایک منظم کوشش ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 2010 میں ہونے والی اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو تعلیم، صحت، معدنیات اور دیگر اہم شعبوں پر اختیار دیا گیا تھا۔ اس ترمیم نے پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کو ایک حقیقی جمہوری سمت دی۔ مگر ستائیسویں ترمیم اسی تاریخی کامیابی کو الٹنے کی کوشش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔

ستائیسویں آئینی ترمیم کے اہم نکات

اگرچہ حکومت کی جانب سے باضابطہ مسودہ مکمل طور پر عوام کے سامنے نہیں لایا گیا، تاہم مختلف سیاسی و آئینی ذرائع کے مطابق اس ترمیم میں چند نمایاں نکات درج ذیل ہیں:

وفاقی اختیارات کی توسیع

ترمیم کے تحت وفاق کو دوبارہ ان محکموں پر اختیار دینے کی تجویز ہے جو اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کیے گئے تھے۔ اس میں تعلیم، صحت اور مقامی وسائل کا انتظام شامل ہے۔

نیشنل فنانس کمیشن (NFC) ایوارڈ کی از سر نو تشکیل:

مجوزہ ترمیم کے مطابق وفاقی حکومت صوبوں کو ملنے والے مالی حصے پر نظرِ ثانی کرنا چاہتی ہے، جس سے چھوٹے صوبوں خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

صوبائی خودمختاری میں کمی:

ترمیم کے بعد گورنرز اور وفاقی نمائندوں کے اختیارات میں اضافہ متوقع ہے، جس سے صوبائی اسمبلیوں کی خودمختاری کم ہو سکتی ہے۔

وفاقی کنٹرول میں تعلیمی نصاب:

قومی نصاب کی تیاری اور منظوری کا اختیار دوبارہ وفاق کو دینے کی تجویز بھی ستائیسویں ترمیم میں شامل بتائی جا رہی ہے۔

سیاسی و عوامی ردعمل

ستائیسویں آئینی ترمیم کے اعلان کے بعد سے ملک بھر میں سیاسی جماعتوں اور قوم پرست حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔‎پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور دیگر قوم پرست تنظیموں نے اسے "دائمی مارشل لا کے نفاذ” کے مترادف قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، یہ ترمیم صوبوں سے ان کے معاشی اور انتظامی حقوق چھیننے کی کوشش ہے۔‎

‎ایمل ولی خان، محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل جیسے رہنماؤں نے کھل کر کہا ہے کہ اگر وفاق نے اٹھارویں ترمیم کے اختیارات واپس لینے کی کوشش کی تو یہ عمل "وفاق کی بنیادیں ہلانے” کے مترادف ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم پاکستان کے آئینی توازن کو برباد کر دے گی اور محرومیوں کو مزید گہرا کرے گی۔

قانونی ماہرین کا مؤقف

‎آئینی ماہرین کے مطابق، آئین کی کسی بھی شق میں تبدیلی کرنا ایک حساس معاملہ ہے، کیونکہ یہ صرف الفاظ کا نہیں بلکہ اختیارات اور عوامی نمائندگی کا مسئلہ ہوتا ہے۔‎قانون دانوں کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم نے پاکستان کو ایک مضبوط وفاق بنایا، جبکہ ستائیسویں ترمیم اس وفاقیت کو زوال کی طرف دھکیل سکتی ہے۔

ترمیم کے ممکنہ اثرات

اگر یہ ترمیم نافذ کی گئی تو سب سے زیادہ نقصان چھوٹے صوبوں کو ہوگا۔ مالی وسائل کی کمی، ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ، اور مقامی اداروں کی خودمختاری کا خاتمہ ایسے اثرات ہیں جو اس ترمیم کے نتیجے میں سامنے آ سکتے ہیں۔‎مزید برآں، صوبوں اور مرکز کے درمیان اعتماد کی فضا ختم ہو سکتی ہے، جس سے سیاسی عدم استحکام بڑھنے کا اندیشہ ہے۔‎

نتیجہ

ستائیسویں آئینی ترمیم بظاہر ایک انتظامی اصلاحات کا خاکہ لگتی ہے، مگر حقیقت میں یہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے۔‎جمہوریت کی بقا، صوبائی خودمختاری اور آئین کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ ایسی ترامیم صرف سیاسی مفادات کے بجائے قومی اتفاقِ رائے سے کی جائیں۔‎پاکستان کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اپنے آئین کے بنیادی اصول — "اختیارات کی منصفانہ تقسیم” — کو برقرار رکھتے ہیں یا دوبارہ مرکزیت کے اندھیرے میں چلے جاتے ہیں۔

اسی طرح مزید تو اپ جان معلومات کے لیے ہمارے ویب سائٹ ڈیلی رپورٹس پر تشریف

Leave a Comment